۲۹ شهریور ۱۴۰۳ |۱۵ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 19, 2024
عورت پر ظلم

حوزہ / آج مجھے جس موضوع پہ قلم اٹھانے نے مجبور کیا ہے وہ عورت کی بے حسی اور لاپرواہی ہے، عورت کا عورت پہ ظلم ہے۔

تحریر : سیدہ نصرت نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی | آج تک مردوں کے خلاف اتنا کچھ پڑھا ہے لیکن عورتوں کی جتنی پرواہ کی جاتی ہے یا ان کے بارے میں جتنا کچھ لکھا جاتا ہے۔ معاشرے میں عملی طور پر اس کے برعکس نظر آتا ہے۔

اب عمل برعکس ہونے کے بھی دو نکتے ہوسکتے ہیں:

1- جو کچھ لکھا جارہا ہے وہ جھوٹ ہے۔

2-جو لکھا جاتا ہے اس پہ عمل نہیں کیا جاتا ہے اور اس کے عملی نہ ہونے میں بھی عورت ہی کا ہاتھ ہے۔

قارئین کرام! آپ کیونکہ اپنی زندگی کے کسی بھی پہلو کو اٹھاکر دیکھیں اس میں عورت پہ ظلم کی 85٪ فیصد وجہ خود عورت ہی ہے۔

اگر گھریلو زندگی اٹھاکر دیکھیں تو چاہے شادی سے پہلے ہو یا شادی کے بعد عورت ہی عورت پہ ظلم کے پہاڑ توڑتی نظر آتی ہے اور اگر گھریلو اور بیرونی زندگی کا موازنہ کیا جائے تب بھی باہر کی دنیا میں بھی عورت ہی عورت کے ظلم اور انتقام کا نشانہ بنتی ہے۔

اس کی تفسیر یہ ہوگی کہ شادی سے پہلے یعنی بچپن میں ہی گھر سے عورت یا یوں کہیں لڑکی پہ ظلم شروع ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھی یہ ظلم ماں خود اپنی بیٹی کا کرتی نظر آتی ہے۔

جی ہاں قارئین! یقینا آپ میری اس تحقیق سے ضرور چونکے ہونگے اور یقینا ان الفاظوں سے پختہ اذہان میں زلزلہ بھی آیا ہوگا۔لیکن یقین کیجیے یہ ایک تلخ اور کھری حقیقت ہے۔ ایک عورت ہونے کے ناطے اگر ماں اپنی بیٹی کو خود سے زیادہ ذہین و فطین دیکھتی ہے (یا یوں کہیں کہ شاید وہ اپنی بیٹی کی بہتری اس قسم کی سختی میں دیکھتی ہے) تو وہ دو صورتوں میں بچی پہ ظلم کرے گی:

پہلی جب وہ شوہر کی توجہ بیٹی کی طرف دیکھے گی، باپ جب اپنی بیٹی کی تعریف کرے گا تو عورت ضرور کہے گی تم اسے بگاڑ دوگے، مغرور بنارہے ہو۔

دوسری صورت جب دوسرے بچوں کے درمیان وہ اس بچی کی خوبیوں کو برداشت نہیں کرپائے گی اس میں ایک وجہ اس بچی کے حمل کے اوقات میں عورت کا مزاج یا حالات ہوسکتے ہیں ممکن ہے بچی کے حمل کے وقت وہ اولاد پیدا کرنے پہ راضی نہ ہو یا مزید بچے پیدا کرنے پہ تیار نہ ہو، شوہر سے ناچاقی ہو وغیرہ۔

بہرحال دونوں صورتوں میں بچی خود اپنی ماں کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوگی۔ بچی کی صلاحیتوں اور خوبیوں کو سمجھنے میں ناکامی ہوگی اور یوں وہ بچی اپنے اوائل زندگی میں ہی عورت کی نفرت کا نشانہ بنے گی جو کہ بدقسمتی سے اس کی ماں ہے اور یہ نفرت ایک تناور درخت کی مانند اس کے اندر پنپنے لگے گی۔

اس نفرت کے بھی دو پہلو نکلتے ہیں پہلا درجہ یہ کہ یا وہ اپنی آنے والی عورتوں کو کمتر سمجھے گی یا برتر۔اور ممکن ہے وہ معاشرے کی عورتوں کو کمتر سمجھے مگر اپنی اولاد کو وہ بہترین رویہ دے سکے جو ایک ماں کا ہونا چاہیے اور اپنی ماں کی کی گئی گذشتہ غلطیوں کو نہ دہرائے۔

دوسرا درجہ اگر آپ خاندان کیساتھ زندگی گزارتے ہیں تو یہاں دادی کو پوتوں کا شوق بھی اس بچی کے اوائل زندگی پہ ظلم کا سبب بنے گا۔ دادی پوتوں کی شوقین ہوگی، پوتی پیدا ہونے پہ نہ صرف دادی بلکہ پھوپیاں ، چچیاں یا تائیاں بھی ظلم کرسکتی ہیں۔ اور بچی کی صلاحیتیوں اور خوبیوں کو برائی کے سانچے میں ڈھال سکتی ہیں۔ اس سے جلن اور حسد کا شکار ہوسکتی ہیں۔ اس پر طنز ومزاح کے نشتر چبھوئے جاسکتے ہیں اور یہ بچی کے ذہن کو بربادی کی طرف سفر کی ابتداء ہے۔ جب اس بچی کو جس نے بڑا ہوکر ایک معاشرے کو تربیت کرنا ہے اسے ہی اعتماد ذات نہ بخشا جائے تو اس کی ذہنی کیفیت کا کیا عالم ہوگا؟

اب آتے ہیں تعلیمی ماحول یعنی اسکول و مدارس کے ماحول کی طرف کہ وہاں پر ایک عورت کے ہاتھوں بچی پہ ظلم کس طرح کیا جاتا ہے۔ اگر استانی ذہنی بیماری کا شکار ہے خود تربیت شدہ نہیں ہے اور لڑکی کے وجود کو پسند نہیں کرتی ہے تو یہاں بھی عورت پہ ظلم ہوگا کبھی طنز کی صورت، کبھی مار پیٹ یا کم نمبر دینے کی صورت میں۔ اور اسی کیساتھ ساتھی کلاس کی دیگر لڑکیاں بھی جلن اور حسد کیوجہ سے یا اس کی قابلیت کیوجہ سے مختلف طریقوں سے اس پہ ظلم کریں گی۔ اس کی کاٹ کریں گی۔

عموما مدارس میں بھی یہی دیکھا گیا ہے کہ وہاں پڑھانے والی معلمات دروس میں کمزور خواتین کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں یا ان کو کمتر سمجھتی ہیں۔

یہی حال جاب پہ جانے والی لڑکیوں کا ہوتا ہے وہاں اس کی خوبیوں کیوجہ سے کولیگز اس کی جابجا شکایتیں لگاتی ہیں، اسے بلند مقام پہ جاتا دیکھ کہ جلن اور حسد کا شکار ہوجاتی ہیں۔

اس کے بعد کہیں جاکر عورت شادی شدہ زندگی میں ظلم کے مراحل سے گذرتی ہے گو کہ یہ سب کہیں نہ کہیں وہ برادشت کرچکی ہوتی ہے۔ لیکن اب وہ اتنی مضبوط ہوچکی ہوتی ہے یا پھر کمزور کہ اگر وہ ظالم ہے تو شوہر اور ساس ، سسر وغیرہ پے ظلم کرے گی اگر مظلوم ہوئی تو کہیں چولہے میں جھونکی جائے گی یا تیزاب کا نشانہ بنے گی۔

بہرحال اگر یہ کہا جاتا ہے کہ مرد عورت پہ ظلم کرتا ہے تو یہ بھی تو دیکھیں اس مرد نے جس عورت کی آغوش میں تربیت پائی ہے وہ آیا کہ عورت خود تو ذہنی بیمار نہیں ؟ یا وہ عورت خود کتنی تربیت یافتہ ہے؟ اس مرد کو تربیت دینے والی عورت خود کتنی تعلیم و تربیت کا شعور رکھتی ہے؟

یاد رکھئے "ظلم کا بیج عورت کی کوکھ سے مرد کے دماغ میں بویا جاتا ہے اسی لئے معاشرے میں دماغی لحاظ سے صحت مند مائیں تربیت کرنے کی اشد ضرورت ہے"۔

یہ جو اس دور کی بچیاں تربیت پارہی ہیں انہوں نے پچھلی دہائیوں کی تمام تر غلطیوں کا بدلہ مردوں سے لینا شروع کردیا ہے حالانکہ یہ خود ان ظلم زدہ عورتوں کی پیداوار ہیں۔ جن کی مائیں بچپن سے عورتوں کی غلط تربیت کا شکار رہی ہیں۔

جس معاشرے میں عورت کی تربیت بہترین ہوجائے وہ معاشرہ خوبصورت ترین معاشرہ ہوتا ہے۔

ساسیں کیوں اپنے بیٹوں کو بہووں پہ ظلم کرنے پر مجبور کرتی ہیں؟ نندیں کیوں اپنے بھائیوں کو بھاوجوں پہ ظلم پہ اکساتی ہیں؟

مجھے یقین ہے کہ محترم قارئین کی سمجھ میں بخوبی آگیا ہوگا کہ عورت پر ظلم خود عورت ہی کرتی ہے۔

ہمیں چاہیے کہ پہلے اپنے معاشرے کی عورت کو عورت کی عزت کرنا سکھائیں۔ عورت خود عورت کی عزت کرے، اسے بہترین ماحول فراہم کرے تب کہیں جاکر اس ظلم کا راستہ بند کیا جاسکتا ہے۔

آئیے عہد کرتے ہیں کہ اس چراغ کو آج ہم خود روشن کریں، اپنی بیٹیوں کی خود عزت کریں اور انہیں مرد کی عزت کرنا سکھائیں۔ جو عورت آج اپنے باپ ، بھائی ، شوہر کی عزت نہیں کرسکتی وہ ایک صحت مند اور باوقار بیٹا کیسے پرورش کرسکتی ہے؟؟۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .